March 2, 2015

بچوں کو پڑھانے کا مقصد اور طریقہ کار___لیکچر

السلام و علیکم !
آپ تمام سوچ رہے ہونگے کہ میں کہاں اس ڈائس پر کھڑا آپ قابل ِقدر اساتذہ کو لیکچر دینے چلا .آپ کی سوچ بلکل ٹھیک ہے .مجھے تدریس کے شعبے میں آئے ہوئے بمشکل چند ماہ ہوئے ہیں اور آپ سب کا تجربہ کئی سالوں پر محیط ہے .کسی مفکر کا قول ہےکہ وہ لوگ جو ایک لمبے عرصے تک کسی نظام کا حصہ رہیں ان سے اس نظام کی خرابیاں اوجھل ہو جاتی ہیں .اس کمرے کا پینٹ جگہ جگہ سے اتر چکا ہے لیکن آپ میں سے کسی نے کبھی نوٹس نہیں کیا ہو گا لیکن اگر کوئی باہر کا شخص آئے  گا تو   سب سے پہلے وہ یہی چیز دیکھے گا .
جو چند ماہ میں  یہاں گزار چکا ہوں اور میرا واسطہ چونکہ بڑی کلاسوں سے رہا ہے تو
میں نے محسوس کیا ہے کہ ہمارے طالب علم کسی سے کم نہیں ہیں .ان کی قابلیت پہ کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے .اصل مسئلہ جو انھیں درپیش ہے وہ یہ ہے کہ وہ کسی چیز کے بارے میں دماغ میں جو سوچتے ہیں اسے صفحات پہ منتقل نہیں کرسکتے .اگر ہم اس مسئلے کی جڑ کو تلاش کریں تو سرا ان طالب علموں کی ابتدائی تعلیم میں نقائص کی شکل میں نکلتا ہے .
اگر میں آپ سے پوچھوں کہ ہم بچوں کو کیوں تعلیم دیتے ہیں تو آپ سب کا جواب کم و بیش ایک جیسا ہو گا کہ انھیں اچھا انسان بنانے کیلئے ،انھیں اچھے اور برے کی تمیز کرنے کیلئے  وغیرہ وغیرہ .لیکن اگر میں آپ سے پوچھوں کہ آپ  میں سے کسی نے نیکی کو دیکھا ہوا ہے یا کبھی کسی کا بدی سے سامنا ہوا ہے .آپ کا جواب یقیناََ  نہیں ہو گا .نیکی اور بدی خیالاتی چیزیں ہیں . ایک اچھا استاد وہی ہوتا ہے جو ان خیالاتی تصورات کو مادی شکل میں اپنے شاگردوں کے سامنے پیش کرے .استاد کا کام یہیں تک نہیں ہے بلکہ اسے اپنے طالب علموں کو اس قابل بنانا ہوتا ہے کو وہ اس خیالاتی تصور کو (جو استاد نے ان کے سامنے پیش کیا ہے ) صفحہ قرطاس پہ اتار سکیں .
ہمارے تعلیمی نظام کا  مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہم کسی چیز کا تصور دینے کی بجائے اس کی ہوبہو تصویر طالب علم کے دماغ میں منتقل کر دیتے ہیں اور مسئلہ یہیں سے شروع ہو جاتا ہے . آجکل ہم لوگ بحثیت قوم دہشت گردی سے اس لئے نہیں نمٹ پا رہے کیونکہ بچپن سے ہمارے دماغ میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ مسلمان کبھی برا کام نہیں کرسکتا (ہم نے مسلمانوں کی ہوبہو تصویر بنا کر اپنے بچوں کو دے دی )،لیکن جب ہم دیکھتے ہیں  کہ دھماکے کرنے والے بھی کلمہ پڑھتے ہیں نعرہتکبیر بلند کرتے ہیں تو ہم کنفیوژ ہو جاتے ہیں اور آپ سب کو پتا ہے کہ ایک کنفیوژ قوم کچھ بھی نہیں کر سکتی .ہم اگر اپنے بچوں کو بتاتے کہ یہ یہ خوبیاں ہیں جس کی بنیاد پہ مسلمان کی شناخت ہوتی ہے تو یہ  مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا .
ایک مثال لیتے ہیں .آپ سب اپنے بچوں کو پڑھاتے ہونگے .
C for chair
اور سامنے والے صفحے پر ایک کرسی کی تصویر بنی ہوتی ہے .ایسا عموما ََ ہر کتاب میں ہوتا ہے .اب بچے نے وہاں سے جو کرسی کا تصور لیا ہے وہ اس کے اردگرد موجود  کرسیوں سے قدرے مختلف ہوتا  ہے .کتاب میں بنی کرسی کی بازو نہیں ہوتی لیکن بچہ اسکول میں جس کرسی پر بیٹھتا ہے اس کی بازو ہوتی ہے .کتاب والی کرسی میں عموما ٹیک نہیں ہوتی  لیکن گھر میں بچہ جس کرسی پہ بیٹھتا ہے اس کی ٹیک بھی ہوتی ہے .سو اس بچے کے  ذہن میں ایک کنفیوژن پیدا ہو جاتا ہے .مسئلہ یہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اسے کرسی کا فقط ایک تصور دیا یا اسے فقط ایک زاویہ دکھایا  لیکن جب وہ اپنے اردگرد دیکھتا ہے تو اسے وہی چیز ایک سے زیادہ زاویوں میں نظر  آتی ہے سو وہ اس چیز کو سمجھنے کی بجائے اسے ہوبہو یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے .یہی چیز رٹاکہلاتی ہے .
جیسے میں نے پہلے کہا  کہ استاد کے فقط دو کام ہیں .
١ . بچے کے ذہن میں کسی چیز کا تصور بنانا
٢ . اسے اس تصور کو بیان کرنے کے قبل بنانا
ہم لوگ ان دونوں کاموں کو گڈمڈ کر دیتے ہیں .ہمارا سارا زور فقط بچے کو اس  قابل بنانا ہوتا ہے کہ وہ کسی کونسپٹ کو کتاب جیسا نقل کر کے لکھ سکے .اس سے بچہ ایک اچھا نقال تو بن سکتا ہے لیکن ایک اچھا طالب علم نہیں .
لہذا ہمارا سب سے پہلا کام جو ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے طالب علموں کے تخیل کو بہتر بنائیں .بچوں میں تخیل کو               بہتر کرنے کیلئے سب سے بہترین طریقہ "کہانی سنانا" ہے  .مثال کے طور پر اگر آپ نے کوئی چیز پڑھانی ہے تو بچوں کو کہانی کی شکل میں پڑھائیں .اس سے ایک تو وہ کھیل ہی کھیل میں اس چیز کا مطلب سمجھ جائیں گے اور دوسرا اس سے بچوں کو خود سوچنے کی عادت پڑے گی .  یہ ہم کیسے کر سکتے ہیں ؟کیا کوئی بتا سکتا ہے ؟                                                                             
سب سے پہلے اپنے طالب علموں کو ضرورت بتائیں  کہ جو چیز آج ہم پڑھنے والے ہیں اس کی کیا ضرورت ہے ؟کیونکہ جب تک ان کو کسی چیز کی ضرورت سمجھ نہیں آئے گی ان کا ذہن اس کو قبول نہیں کرے گا .میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم  ایلیمنٹری اسکول کی کیمسٹری میں اپنے بچوں کو اٹامک اسٹرکچر پڑھاتے ہیں .کیا ہم نے کبھی ان کو بتایا ہے کہ یہ ہم کیوں پڑھتے ہیں ؟آخر سائنسدانوں کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ انہوں نے اتنے تجربات کئے اور ایٹم کی اندرونی ساخت کو دریافت کیا ؟کیا اس کے بغیر دنیا کا کام نہیں چل سکتا تھا؟آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہو گا کہ" ضرورت ایجاد کی ماں ہے" .
سو اگر ہم ایک لسٹ بنا لیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو کیسے ایک اچھا مصور بنانا ہے تو سب سے پہلا پوانٹ ہو گا .
١.جس چیز کا خیال ذہن میں بنانا ہے اس کی ضرورت (فائدہ )کیا ہے ؟اگر ہم کرسی کی مثال کو دوبارہ یاد کریں تو ہم سب سے پہلے  بچوں سے پوچھیں گے کہ کیا بیٹھنا ہماری ضرورت ہے یا اس کام کے کرنے سے ہمیں کوئی فائدہ بھی ہوتا ہے ؟اب بچے خود سے سوچے گیں کہ ہم کیوں بیٹھتے ہیں ؟ان کے ذہن میں سوچنے کی طلب پیدا ہو گی .کوئی کہے گا کہ کھڑے رہنے سے ہم تھک جاتے ہیں اس لئے بیٹھ جاتے ہیں .کوئی کہے گا کہ ہم جب ٹی وی  دیکھتے ہیں تو بیٹھ کے زیادہ آسانی سے نظر آتا ہے  ، الغرض اس طرح کے کئی جواب آپ کو ملیں گے  جس سے یہ ثابت  ہوتا ہے کہ بیٹھنا ہماری ضرورت ہے اور اس سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے .
اب اس کے بعد دوسرا پوانٹ ہو گا
٢.کتنے طریقے ہیں جس کے کرنے سے ہماری ضرورت پوری ہو سکتی  ہے ؟   اب اس پوانٹ پہ آپ اپنے  بچوں کو آپشنز بھی دے سکتے ہیں ؟آپ دو تصویریں بنا سکتے ہیں ایک میں چپٹی سطح بنی ہو جب کہ دوسرے میں کھردری سطح ہو .آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ کس سطح پر ہم آسانی سے بیٹھ سکتے ہیں ؟ بچے پھر سوچیں گے ؟اور کہیں گے کہ چپٹی سطح پر ہم آسانی سے بیٹھ سکتے ہیں .
٣.ہمارے پاس کتنی آپشنز ہیں ؟  اب جب آپ نے بیٹھنے کے لئے چپٹی سطح منتخب کر لی تو اس کے بعد آپ پوچھیں گے کہ اپنے ارد گرد دیکھیں اور بتائیں کہ کونسی جگہیں چپٹی ہیں .بچے پھر سوچیں گے اور مختلف جگہوں کے بارے میں آپ کو بتائیں گے .مثلا ََ فرش ، میز ، کرسی وغیرہ آپ  بچوں کی بتائی ہوئی ہر مثال کو اس کے فوائد اور نقصانات کے مطابق پرکھ سکتے  ہیں اور اس طرح آپ مطلوبہ چیز کا کونسپٹ بچے کو دے سکتے ہیں .آپ بچے کو ہر پوانٹ پہ آپشنز دیں گے اور بچے اس میں سے فائدہ مند آپشن کو چن لیں گے.
اس ماڈل کے کئی پہلو ہیں .اگر کوئی ایسی چیز جس کا تصور کافی پیچیدہ ہے تو آپ اسے مختلف چھوٹے چھوٹے حصّوں میں تقسیم کر سکتے ہیں .یعنی اس ماڈل کی خصوصیات میں سے  نمایاں ترین  خصوصیت ہے " ضرورت اور اختیارات (آپشنز )"
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ جو مثال ہم نے استعمال کی ہے (کرسی کی ) وہ تو مادی اشیاء میں سے ہے ہم اسے چھو  سکتے ہیں ،اسے محسوس کر سکتے ہیں .اگر کسی ایسی چیز کا تصور کرنا پڑے جو خیالی ہے تو پھر ؟
مثال کے طورپر اگر آپ اپنے بچوں کو  " مائی کنٹری " پہ مضمون لکھنے کو کہیں تو ایک ملک کا تصور کیسے اس کے ذہن میں ڈالیں گے ؟میں اپنے بچپن میں جب پڑھتا تھا کہ "قائدِاعظم نے پاکستان بنایا  "اور اگلے صفحات پہ پڑھتا تھا کہ "مستری نے مکان بنایا "تو میں سمجھتا تھا کہ  دونوں کام ایک جیسے ہی ہی ہیں  .دونوں میں کوئی چیز بن رہی ہے .تمام اساتذہ اس بارے میں سوچیں اور بتائیں کہ آپ اپنے طالب علموں کو( جو کہ چھوٹے ہیں ) ان دونوں فقروں کا کانسپٹ  کیسے سمجھائیں گے ؟
(یہ لیکچر بلاگر کی طرف سے  ایک ٹیچر  زٹریننگ ورکشاپ میں دیا گیا )


No comments:

Post a Comment