September 30, 2014

نیا قانون 2014


جب سے بخشو ریڑھی بان نے سنا تھا کہ کراچی ائیرپورٹ پہ غصے سے بھرے ہوئے مسافروں نے دیر سے آنے پر دو سیاستدانوں کو جہاز سے اتار دیا ہے  تو اس کا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا .اسے بھی اپنا آپ تھوڑا معزز لگنے لگا تھا .کیونکہ اس سے پہلے تو اسے انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا.جب سےاسنے ہوش سنبھالی تھی وہ اپنے باپ کے ساتھ پھل کی ریڑھی سرکاتا  تھا .باپ کے مر جانے کے بعد وہ اس کی وراثت کا اکلوتا وارث بن گیا تھا اور یہ وراثت فقط ایک ریڑھی تھی اور ایک نصیحت جو اس نے مرتے وقت کی تھی .
"دیکھ پتر !آسمان پہ تو ایک رب ہے نا لیکن زمین پہ کئی چھوٹے چھوٹے خدا بنے بیٹھے ہیں، چوکی والے تھانیدار صاحب، بلدیہ والے مائی باپ ،وہ شیخ صاحب جس کی دوکان کے آگے ریڑھی کھڑی کرتا ہے ،یہ سب....! ان سب کو ان کا حصہ ٹائم پہ پہنچا دیا کرنا نہیں تو اوپر والا خدا بھی تم سے ناراض ہو جائے گا" .
باپ کے جانے کے بعد

September 20, 2014

آغازِ بلاگ

اللہ تعالیٰ کےحکم سےآج سےاردوبلاگ لکھنے کا آغاز کر دیا ہے.اردو بلاگنگ سے تومیں ایک عرصے سے واقف تھا اوراس کےطریقہ کارسےبھی کچھ واقفیت تھی لیکن کبھی سوچا نہیں تھا کہ خود بھی اپنا بلاگ بناؤں گا.