April 2, 2015

گلوبل وارمنگ


مشر قی  افق سے سورج اپنے دامن میں حرارت و روشنی  کا سیل رواں لئے ہوئے دھیرے دھیرے  بلند ہو رہا تھا .وہ زمین پہ جدھر بھی نگاہ دوڑاتا تھا ، انسان کا  انسان سے برتاؤ اسے اور برہم کر دیتا تھا.  جوں ہی سورج نے  انسانوں کے سروں میں حرارت  انڈیلنی  شروع کی تو صادقہ بھی چوکی اٹھا کے چرخے کے پاس آبیٹھی .روئی کی گانٹھیں ایک ٹوکری میں پاس ہی پڑی ہوئی تھیں .اس نے چرخے کے ایک طرف پڑی چنگیر اٹھائی اور  اس میں سے  ایک خالی نلکی اٹھائی اور اسے  سلاخ میں پرو دیا .پھر اس نے ایک گانٹھ لی اور نلکی سے بندھے دھاگے سے جوڑ دیا اور دوسرے ہاتھ سے چرخہ گھمانے لگی .ایک گانٹھ ختم ہونے پہ وہ دوسری گانٹھ اس سے جوڑ لیتی اور اسی طرح روئی دھاگہ بننے لگی .
گھوں گھوں کی آواز گھر کے درودیوار  سے ٹکرانے لگی .صادقہ کا  یہ روز کا  معمول تھا  اس  لئے کسی نے بھی  اس آواز کو شرف پذیرائی نہ بخشا .نہ ہی کھونٹے سے بندھی بکری نے اور نہ ہی کچے صحن کے وسط میں ایستادہ پیپل کے درخت میں گھونسلا کیے ہوئے چڑیوں کے جوڑوں نے .

چرخہ تو وہ بچپن سے  ہی چلا لیتی تھی لیکن جب سے آصف کے ابّا فوت ہوئے تھے چرخہ چلانا اس کی مجبوری بن گئی تھی .آصف کے ابّا کو دل کا اٹیک ہوا تھا .صادقہ کو آج بھی وہ دن یاد تھا.مونجی کا  سیزن چل رہا تھا .شکور  روز  سویرے سویرے دو برکیاں زہر مار کر کے چودھریوں کے  ڈیرے پہ چلا جاتا تھا .اس دن بھی وہ جانے لگا تو کہتا ہے  بھلیے لوکے ....!اج پتا نہیں  کیوں جانے کو دل  نہیں کر رہا کام پہ .پھر خود ہی بڑبڑانے لگا کہ کام  نہیں کرے گا تو کہاں سے کھاۓگا .لو جی ابھی مسجد میں میاں جی نے بانگ بھی نہیں دی تھی کہ کچھ لوگ  شکورے کو کندھوں پہ اٹھاۓ ہوئے لے آے اور  چارپائی صحن میں رکھ دی .صادقہ  کی تو دنیا ہی اجڑ گئی .لوگ کہتے تھے کہ  اسے دل کا اٹیک ہوا تھا .
ہفتے کے رونے دھونے کے بعد جب مٹکی میں رکھا آٹا بھی ختم ہو گیا تو اسے پیٹ پوجا کی فکر ہوئی .تب آصف صرف سات سال کاتھا.وو جو خاوند کو ہر وقت نکھٹو کے کوسنے دیا کرتی تھی اب اسے بہت یاد آ رہا تھا .بہت سوچنے کے بعد اس نے داج میں آیا ہوا چرخہ  جھاڑ پھونک کے نکالا اور اسے صحن کے ایک کونے میں رکھ دیا .
سارا دن گھر کے کام کاج میں ہاتھ چلانے والی  اب چرخہ چلانے لگی .وہ خود ہی روئی لے آتی اور دھاگے کی نلکیاں بنا کر بیچ دیتی .اس طرح گھر کی گاڑی چرخے کے پہیے کے ساتھ آہستہ آہستہ چلنے لگی .اس نے آصف کو سرکاری سکول میں داخل کرا دیا اور خود  پہیہ گھمانے لگی  ........!گھوں....گھوں...گھوں ....!!
کہتے ہیں کہ انسان اپنا رزق لکھوا کر آتاہے  اور  چند ایک کے خیال میں تو انسان کی ہر اک چیز پہلے سے طے شدہ ہے .بس فرق اتنا کہ انسان اسے کیسے حاصل کرتا              ہے.صادقہ بھی اپنے اور اپنے حصّے کا رزق جیسے تیسے حاصل کرتی رہی .                                                                  
وقت کا پنچھی  پر لگا کے اڑتا رہا .گھر کے صحن میں لگایا گیا پیپل کہ پودا تناور درخت  بن گیا  تھا .اس نے ایک بکری بھی پال لی جو ہر سال کہ سال ایک دو بچے جنتی جسے وہ بیچ کر چند دن سکون سے نکال لیتی .پیپل کے پیڑکے ساتھ ساتھ آصف بھی بڑا ہوتا گیا .بلکل اپنے باپ پہ گیا تھا .اسی جیسا گھٹا ہوا بدن ،وہی بالوں کاپف .......
………………………………………………………………………………………….
ابھی میاں جی نے ظہر کی بانگ نہیں دی تھی کہ وہ اٹھ کھڑی ہوئی .سارا کام  وہیں چھوڑا اور کونے میں پڑے گھڑے سے پانی کٹورے میں نکالا اور پینے لگی .آصف پتر آنے والا ہے پہلے اس کی روٹی پکا لوں .ابھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ دروازے پہ باہر دستک ہوئی.وہ سوچنے لگی کہ یہ کون ہے ؟ابھی تو آصف کے آنے میں ٹائم ہے .اس نے دروازہ کھولا تو  آصف کا دوست تھا   میر محمد.
وے  میرو .....!آصف کدھر ہے ؟صادقہ نے پوچھا
 میر محمد ہانپنے لگا ....وہ آصف کو چودھریوں کے منڈے نے تختی مار  دی ہے .اب ماسٹر صاحب اسے اٹھا کے شہر لے گئے ہیں تانگے میں ......
صادقہ کا  دل بیٹھ گیا ....بھاگی بھاگی اندر گئی  لمبی چادر لی  اور میرو کا ہاتھ پکڑ کے بولی تو چل میرے ساتھ ......
گلی سے بھاگتے ہوئے گذرتے ہوئے وہ چاچاپھتو کی دوکان  پہ لمحے کو رکی ....چاچا گھر کھلا ہے دھیان رکھنا .....
مین روڈ جو شہر کو جاتی تھی  اس پہ اسے ایک خالی تانگہ مل گیا .اس نے ثابت تانگہ کرایا  .تانگے پہ بیٹھتے ہی اسے رونا آ گیا .
اب بتا کیا ہوا تھا سکول میں؟اس نے روتے ہوئے میرو سے پوچھا
ہونا کیا تھا ماسی ...سجاول نے جان بوجھ کے دوات آصف کے کپڑوں پہ گرا دی تھی .دونوں میں جھگڑا ہوا تو ماسٹر صاحب نے آصف کو کان پکڑوا دیے آخری گھنٹی میں دونوں پھر لڑ پڑے اور  سجاول نے تختی اٹھا کے یہ ماری ...میرو ایسے بتانے لگا جیسے  جنگ کا منظر  بیان  کر رہا ہو ...
یہ جنگ ہی تو تھی ...ازل سے ابد تک جنگ ..... کمزور اور طاقتور کی جنگ ............ظالم اور مظلوم کی جنگ ....جس میں جیت صرف ظالم کی ہی ہوتی تھی اور مظلوم کے ہاتھ ہمدردی کے چند بول ہی آتے تھے . مظلوموں کے لاشے بھی ظالم ہی اٹھاتے تھے  اور  اپنی خدا ترسی  اور سخاوت کے ڈونگرے بجاتے تھے . ....دیکھ لو ہم کتنے فیاض ہیں ...!!ہم نے مرنے والے کو با عزت دفنایا ہے ....اس کے پچھلوں کی امداد کی ہے ....حالانکہ کوئی اس ظالمانہ نظام کے خلاف بات نہ کرتا تھا جس کے آہنی شکنجے میں غریب کی گردن آتی تھی ....نہ کوئی پولیس  والا ....نہ کوئی جج...نہ کوئی انصاف پسند وکیل ....سب کی روزی روٹی اسی نظام سے وابستہ تھی ....سب بکے ہوئے تھے ....
پھر کیا ہوا ...؟صادقہ نے بیقراری سے پوچھا
ہونا کیا تھا ...ہر طرف لال و لال ہو گئی جگہ ....آصف پھڑکنے لگا ...پھر ماسٹر جی  نے اسے تانگے میں ڈالا اور شہر لے گئے ...سب کو چھٹی ہو گئی .....
یا اللہ  خیر کریں .....صادقہ ہچکیاں لینے لگی .....
بھائی جی....!! ذرا جلدی چلو نا
تانگے والا جو  ساری  واردات سن چکا تھا  بولا ....باجی جی !حوصلہ کریں..اللہ سب کرم کرے گا ....اصل میں روڈ بڑی خراب ہے ....
اس نے تانگے کی رفتار  بڑھا دی .ادھڑی ہوئی سڑک پہ تانگہ ہچکولے کھانے لگا ....
صادقہ کی ہچکیاں بھی بلند ہوتی گئیں.....
ہچکیاں اور ہچکولے  دونوں زیست کا نوحہ پڑھنے لگے جس میں تھوڑی دیر بعد آنسوؤں کی بارش بھی داد و تحسین  کے لئے برسنے لگی .
سول ہسپتال پہنچتے ہی صادقہ  دوڑی  دوڑی اندر داخل ہوئی ...تانگے والے کو کرایہ بھی نہ دیا  جو اس کے پاس ہے بھی نہیں تھا .
اس نے بھی  کرایہ نہیں مانگا ...شاید وہ بھی غریب تھا  اور دنیا کے سارے غریب شاید ایک طرح  ہی سوچتے ہیں ....
صادقہ پوچھتی پچھاتی اس وارڈ میں پہنچ ہی گئی جہاں اس کا لخت جگر پڑا ہوا تھا .
کیا ہویا میرے  لال کو ....وہ دوڑتی ہوئی پہنچی
ماسٹر  صاحب نے  مڑ  کے حیرت سے اسے دیکھا ....کچھ نہیں ہوا    معمولی سی چوٹ ہے.ڈاکٹر دیکھ گیا ہے .....
اتنے میں صادقہ کے پہلو میں چھپا میرو بھی آگے آیا تو ماسٹر صاحب نے اسے قہر آلودہ نظروں سے دیکھا ..
کیوں کہ انہوں نے تمام بچوں کو منع کیا تھا یہ بتانے سے .....میرو خوف سے پھر پلو کے پیچھے چپ گیا
صادقہ  آصف کے سرہانے  ٹسوے بہا رہی تھی .اچھا بہن جی میں اب چلتا ہوں ...میں نے ڈاکٹر سے بات کی ہے وہ کہتا ہے کہ ابھی اسے ہوش  آ جانا ہے پھر اسے گھر لے جانا .ماسٹر صاحب اٹھ کے جانے لگے.صادقہ اس سے   کئی سوال پوچھنا چاہتی تھی لیکن پھر سوچا کے ایک دفعہ یہاں سے نکل لیں تو پھر پتا کروں گی سارا معاملہ.ماسٹر صاحب جان چھڑا کے نکل گئے .
صادقہ آصف کو دیکھنے لگی .سر  پہ   پٹی بندھی  ہوئی تھی ماتھے پہ  جگہ جگہ خون جم گیا تھا .
تھوڑی دیر بعد ایک نرس آئی.ارے یہاں جو شخص تھا وہ کہاں گیا ؟
کیا ہوا جی ...؟وہ تو چلے گئے ہیں ماسٹر صاحب ...آپ مجھےبتائیں...؟میں اس کی ماں ہوں ..
اچھا بی بی ...!!آپ  ادھر  ہی بیٹھیں....ابھی پولیس آ رہی ہے ....نرس نے سرد لہجے میں کہا.
نہیں میڈم جی ...ہمیں پولیس میں نہیں جانا ......صادقہ نے سوچا کہ خود ہی معاملہ سلجھا لے گی .
او  ....!  بی بی! مر گیا ہے تیرا پتر ....ادھر مرا ہوا ہی آیا تھا ...آخری سانسوں میں تھا ...اب پولیس ہی دیکھے گی آ کر .....نرس نے چیخ کر بولا
صادقہ اس سے آگے کچھ سن نہ سکی ...وہیں گھٹڑی بن کے بیٹھ گئی  اور بین کرنے لگی ....اس کی چیخیں ساتویں آسمان پہ جاتی ہوئی محسوس ہوئیں ....
آس پاس کے لوگوں  نے ایک دو بار  حیرت سے دیکھا  پھر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے .....
غم کدے میں کون  کون اپنے  دکھ بانٹ سکتا تھا اور کس حد تک ...کبھی پستے ہوئے گیہوں نے بھی ایک دوسرے سے پوچھا ہے کہ چوٹ تو نہیں لگی ...؟؟
میرو بھی پاس کھڑا حیرت سے آصف کی طرف دیکھ رہا تھا  اور جب کبھی وہ اردگرد کے ماحول سے بوجھل ہو جاتا تو  آنسو بہا کر رونے لگتا .
تھوڑی دیر بعد ہی پولیس آ گئی  ساتھ میں چودھری جی  اور چودھرانی  صاحبہ بھی تھیں .
چودھرانی نے آگے بڑھ کے صادقہ کو گلے لگا لیا اور خود بھی رونے لگی ...
چودھری بھی اس کے سر   پہ  ہاتھ پھیرنے لگا ....صبر کر دھی رانی !....صبر کر !!....اللہ کو یہی منظور تھا ...
صادقہ چیخنے چلانے  لگی .....آپ کے نکِے منڈے نے میرے آصف کو مارا ہے.اس نے مارا ہے ....ہاں ....!ہاں...! اسی نے مارا ہے .وے تھانیدار ....! ان کو پکڑ انہوں نے میرے پت کو مارا ہے ...یہ مجھے بھی مار دیں گے .....ہاں مجھے بھی مار دیں گے ....پکڑ انھیں ..!!پکڑ ...
اس سے پہلے کہ تھانیدار کچھ بولتا ....چودھری  خود بول پڑا ...ویکھ پتر تجھے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ...
وہ کدھر گیا ہے ماسٹر ....اوئے  ماسٹر ادھر آ ...
بتا کیا بات ہوئی ہے اسکول میں ...؟
ماسٹر جو پیچھے کدھر چھپا ہوا تھا  مودب  سا ہو کے آگے بڑھا اور منمنانے لگا ...چودھری صاحب ٹھیک  کہہ  رہے ہیں   بہن میریے .....وہ تو سجاول پتر نے تختی بٹوں کے  منڈے کی طرف اچھالی تھی کہ آصف بیچ میں  آ گیا ....اس کا کوئی قصور نہیں ہے .....یہ سب غلطی سے ہوا ہے ....اب جو ہونا .....
ہونا  ...ہونہ   کا  مینو نہیں پتا  میرا پتر واپس چاہیے .....ہائے میرا چن ورگا پتر ظالماں مار دتا......ہائے ہائے میں مر گئی .....صادقہ پھر دہائی دینے لگی
اب بولنے کی باری پولیس والے کی تھی  ...ویکھ بی بی !چودھری صاحب ٹھیک  کہہ  رہے ہیں ،اب تمہارا پتر تو واپس آنا نہیں ....اب کیوں اپنی بقیہ زندگی خراب کرنی ہے ...چپ چاپ اس کاغذ  پہ انگھوٹے لگا دے  اور بس ....اس نے ایک کاغذ آگے بڑھایا ....
میں نہیں لگانے انگوٹھے ....صادقہ نے آگے بڑھ کے کاغذ پھاڑ دیا ...پولیس والا سٹپٹا کر رہ گیا ....
وارڈ   میں ان کے اردگرد لوگ بھی جمع ہونے شروع ہو گئے  تھے .پولیس والوں نے جب آگے پیچھے دیکھا تو  تھوڑا گھبرا گئے .ان میں سے ایک جو شایدسب انسپکٹر  تھا چودھری کو بازو پکڑ کے ایک طرف لے گیا اور اس کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگا ...پہلے تو چودھری نا ں ناں میں سر ہلاتا  رہا پھر کچھ سن کے خود ہی  مطمئن ہو گیا ..
ادھر صادقہ جو مسلسل دہائی دے رہی تھی غم کی شدّت سے   بیہوش ہو گئی ....
...........................................................
آج صبح  سویرے ہی دو لوگ صادقہ کے گھر میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے .پیپل کے درخت  پہ  گھونسلا کیے ہوئے چڑیوں نے جب آنکھ کھولی تو چند لوگ آرا لئے ہوئے درخت کو کاٹ رہے تھے . ایک  چڑے نے دیکھا تو گھر کی ہر چیز بکھری پڑی تھی ...وہ چرخہ جو کبھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا آج چرر مرر سا اوندھے منہ ہوا پڑا  تھا .گھڑا ٹوٹا پڑا تھا ....
تمام چڑیاں اپنے اپنے آشیانے سے کوچ کر گئیں...
چند لوگ کہتے ہیں کہ انسان کی ہر چیز پہلے سے طے شدہ ہے ،بس انسان اس کااظہار  مختلف طریقوں سے کرتا ہے ...
لاابالی پن شروع سے صادقہ کی فطرت میں تھا .پہلے وہ  شوہر سے لڑ جھگڑ کر اسے نکالتی تھی ...
پھر چرخے کی گھوں گھوں میں وہ اپنی شوریدہ فطرت کا  اظہار کرتی تھی اور اب .......
اس  کے اندر کا  شور اس کے پاگل پن سے ظاہر ہوتا ہے....وہ آج اسی اسکول کے باہر بھیک مانگتی ہے جس کے اندر  وہی استاد بچوں کو برابری کی تعلیم دیتا ہے .اس کو کھانا اسی تنور سے ملتا ہے جو اب  کہ  چودھری  سجاول  کے ڈیرے کا  حصہ ہے .
مشرقی افق سے سورج اب بھی روشنی اور حرارت کا سیل رواں لئے ہوئے نکلتا ہے ....اب وہ پہلے سے زیادہ گرم ہوتا ہے  کیونکہ انسان کا انسان سے ظلم دیکھ کر  برہمی اس کی فطرت  بن گئی ہے.یہ سورج اس وقت تک بھڑکتا رہے گا جب تک یہ ایک بار ہی  غصے سے پھٹ نہیں جاتا یا گھوں  گھوں کی آوازیں  کسی اور صادقہ  کے گھر سے پھر سے آنا شروع نہیں ہو جاتیں ....
لیکن ....ہم  سب انسان بھی بڑے چالاک ہیں .... چند "چودھری سجاول "کو بچانے کے لئے ہم نے اسے "گلوبل وارمنگ "کا نام دے دیا ہے .
                                                                         

No comments:

Post a Comment