February 7, 2015

بِگ فٹ

آج چھٹی کا دن تھا لہذا میں نے اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ کہیں گھونے پھرنے کا پلان بنایا .طے  یہ پایا کہ دریاۓ چناب کی سیر کی جائے اور فشنگ بھی کی جائے .دن بھر تیاریوں میں گزر  گیا .سہ پہر کے وقت ہم دونوں باپ بیٹا گاڑی لے کے نکلے اور آدھے گھنٹے میں بیراج پہنچ گئے .یہ جگہ مجھے بچپن سے ہی بہت پسند تھی اور میں اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں آیا کرتا تھا .لیکن اپنے بیٹے کے ساتھ میں پہلی دفعہ یہاں آیا تھا  اسلئے  میں بہت پرجوش تھا .میں ویسے بھی اسے بہت کم وقت دے پاتا تھا .
موسم بھی سہانا تھا لہذا کافی تعداد  میں لوگ سیر و تفریح کے لئے آئے  ہوئے تھے . پلان کے مطابق ہم پہلے خوب گھومے پھرے.کشتی کی سیر بھی کی .چٹپٹی چاٹ بھی کھائی .وہ  بہت خوش تھا اور ظاہری سی  بات ہے اسے دیکھ کر میں بھی بہت خوش تھا .
جب خوب گھر کر ہم تھک رہے تو ایک کونے میں بیٹھ کر  فشنگ  کی تیاری کرنے لگے .میں چونکہ پہلے بھی فشنگ کرتا رہتا تھا اسلئے مجھے اس کے  سارے لوازمات کا پتا تھا .جب میں کانٹے میں چارہ لگا رہا تھا تو میرا بیٹا
بول پڑا،"بابا ہم مچھلی کیسے پکڑیں گے ؟"
میں اسے تفصیلات بتانے لگا ،"بیٹا ہم نے اس کانٹے کے آگے مچھلی کی خوراک لگائی ہے .جب وہ اسے کھانےآئے گی تو اس کے منہ میں یہ کانٹا پھنس جائے گا .پھر ہم اسے ڈور کے  ساتھ  نکال لیں گے "
"یہ تو دھوکا ہے  "اس نے گویا اپنا فیصلہ سنا دیا .
مجھے ذرا حیرت ہوئی ،"نہیں بیٹا دھوکہ نہیں ہے .مچھلی اسی طرح پکڑتے ہیں ".اب میں اسے کیا بتاتا کہ یہ دنیا دھوکے کی بنیاد پہ ہی قائم ہوئی تھی .
"یہ دھوکہ ہی ہے ".اس کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی ہوئی تھی .
میں نے سارا سامان وہیں رکھا اور اٹھ کے اس کے پاس بیٹھ گیا ،"او شونو !کیسی باتیں کر رہے ہو .اللہ میاں نے مچھلی کو اسی لئے بنایا ہے تا کہ ہم اسے پکڑ کر کھا سکیں .اب تمہیں تو پتا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز اللہ کے دیے ہوئے حکم کا انکار نہیں کر سکتی .اس لئے مچھلی  ذرا سی تکلیف برداشت کر لیتی ہے لیکن  ہمیں مزیدار مچھلی بھی تو مل جاتی  ہے .اب تمہیں تو پتا ہے کہ جب کوئی اللہ میاں کی بات نہیں مانتا تو وہ ناراض ہو جاتا ہیں .ہیں......پتا ہے نا ؟میں بھی اس کے ساتھ بچہ بن گیا تھا
یہ تو مجھے پتا ہے .
شاباش !گڈ  بوائے......  میں اس کا منہ چھومتے ہوۓ اپنی جگہ پر واپس آ گیا .پہلے میں اس جگہ پر کچھ چارہ ویسے ڈالا اور پھر کانٹے کے آگے چارہ لگایا اور پانی میں ڈال کے انتظار کرنے لگا .سورج درختوں کے پیچھے اوجھل ہونے کی تیاری کر رہا تھا اور موسم میں خنکی بڑھ رہی تھی .یہ جاتی گرمیوں کے دن تھے.میں نےاس  کی  جانب دیکھا .وہ ارد گرد سے بےنیاز مسلسل پانی میں گھور رہا تھا .ہر باپ کی طرح مجھے بھی اپنے بیٹے سے بہت پیار تھا اور میں چاہتا تھا کہ وہ بھی میری طرح ایک کامیاب انسان بنے اور اپنے خاندان کا نام روشن کرے .جب اس کا مسلسل پانی میں گھورنا جاری رہا تو مجھے تشویش ہونے لگی ،'کیا بات ہے بیٹا ؟ادھر آؤ اپنے بابا کے پاس  بیٹھو .
وہ اٹھ کرمیرے پاس آ کر بیٹھ گیا .
بابا ...؟
جی بابا کی جان ....
بابا  اگر مچھلی کو اللہ نے بنایا ہے تو وہ خود ہی ہمارے پاس کیوں نہیں آ جاتی ؟ اس طرح اسے درد بھی نہیں ہو گا  اور ہم اسے کھا  بھی لیں گے .
میں اسے پھر سمجھانے لگا .دیکھو بیٹا !اب مچھلی کو کیسے پتا کہ  ہمارا  دل مچھلی کھانے کو کر رہا ہے .جب ہم کانٹا ڈالتے ہیں تو تب ہی اسے پتا چلتا  ہے نا  کہ ہمارا دل کر رہا ہے .تب وہ کانٹے میں پھنس جاتی ہے اور ہم اسے  پکڑ لیتے ہیں .جس انسان کا دل چاہے وہی مچھلی کھاتا ہے .کیا آپ کا دل کرتا ہے نا  مزے مزے کی مچھلی کھانے پہ ؟
جی ....!بہت ....
"اچھا  تو اب خاموش ہو جایئں نہیں تو مچھلی بھاگ جائے گی "،میں نے منہ پہ انگلی رکھتے ہے کہا .
وہ کچھ اور پوچھنا چاہتا تھا لیکن  خاموش ہو گیا .
کافی انتظار کے بعد جب کوئی مچھلی ہاتھ نہ آئی تو میں نے کانٹا نکالا اور سامان سمیٹنے لگا .
آیئں بیٹا چلتے ہیں .لگتا ہے یہا ں کوئی مچھلی نہیں .میں نے سامان اٹھایا اور گاڑی کی  طرف چلنے لگا .وہ بھی چھوٹے قدموں سے میرا ساتھ دینے لگا  .
پر با...با....!میرا تو دل کر رہا تھا مچھلی کھانے پہ .اس نے منہ بسورتے  ہوئے کہا .
کوئی بات نہیں بیٹا ہم مچھلی ضرور کھایئں گے .میں نے گاڑی موڑی اور فش شاپ  پہ جا پہنچا  اور دو کلو مچھلی   پیک کرنے کو کہا .
بابا ....اگر اس کی مچھلی ہم لیں لے گے تو یہ کہاں سے کھائے گا ؟آپ نے تو کہا تھا کہ جس کا دل کرے وہی مچھلی کھاتا  ہے.اس نے پھر سوال جڑ دیا .دکاندار اس کی بات سن کر مسکرانے لگا .
مجھے اب الجھن ہونے لگی تھی .
میں نے اسے جھڑک  دیا .یہ کیا تم نہیں  مچھلی مچھلی کی رٹ لگا رکھی ہے .کچھ دیر  خاموش نہیں رہ سکتے ؟
میرے غصے سے وہ سہم گیا اور  سارے رستے کچھ نہ بولا.
گھر پہنچ کر  اس نے  گاڑی سے اترتے ہی باہر کو دوڑ لگا دی .
بیٹا کدھر جا رہے ہو ؟میں نے پیچھے سے آواز لگائی .اپنی مما کے پاس جا کے آرام کر لو .تھک گئے ہو گے .
بابا میں آدم کے  ساتھ کھیلنے جا رہا ہوں .
لیکن ....بے ... بیٹا ....،میں اسے روکتا ہی رہ گیا لیکن  وہ باہر نکل گیا .
ہمارے گھر کے سامنے ایک خالی پلاٹ میں کچھ افغان خانہ بدوش  رہتے تھے .آدم خان   ان کا ہی بیٹا  تھا اور میرے بیٹے   کا گہرا  دوست تھا .
میں بھی بہت تھک گیا تھا اور کچھ دیر آرام کرنا چاہتا تھا .
رات کو کھانے کی میز پر ذرا  دیر سے پہنچا .سب لوگ  کھانا کھانے میں مصروف تھے.
ہیلو بیٹا ..... مزے کی ہے  نا مچھلی ...؟
جی بہت .........اس نے مزے لے کے کھاتے ہوئے کہا .
اس کی ماں اسے کانٹے نکال کے دے رہی تھی .
مما  .......جو  کوئی انسان نہ ہو لیکن انسانوں کی طرح دکھتا ہو اور ان کی طرح بولے تو اسے کیا کہتے ہیں ؟
بیٹا ...مجھے تو نہیں پتا ....اپنے بابا سے پوچھو.ان کا جنرل نالج کافی تیز ہے .
میں نے شکر کیا کہ اس نے پھر مچھلی کا ذکر نہیں چھیڑا."دیکھو بیٹا ہمارے ہاں تو اس معاملے پہ اتنی گفتگو نہیں ہوتی  لیکن ویسٹ میں اس  پہ کافی ریسرچ  ہو رہی ہے .کچھ لوگوں نے ایسے انسان نما جانور  یا جانور  نما انسان دیکھے بھی ہیں .وہاں پہ  انہیں   بگ فٹ کہتے ہیں .یہ جنگلوں میں رہتے ہیں اور کبھی کبھار ہی آبادیوں  کا رخ کرتے ہیں ".
کیا اسکول میں کوئی اسائنمنٹ  ملی ہوئی ہے اس بارے میں ؟اس کی مما نے  مچھلی    کا  ایک پیس اکی پلیٹ میں رکھتے ہے پوچھا.
مما....!  وہ میرا دوست ہے نا آدم؟
ہاں ...کیا ہوا اسے ؟
وہ بگ فٹ ہے ....!!
کیا ...؟  
کیا   کہہ  رہے ہو ...؟میں بھی چیخ پڑا .
"ہاں میں نے اس سے پوچھا تھا"،وہ پر اسراریت  سے کہنے لگا ،وہ کہہ  رہا تھا کہ اس کا دل بھی مچھلی کھانے کو کرتا ہے  لیکن اس نے کبھی مچھلی نہیں کھائی .اور بابا ہی نے تو بتایا تھا کہ  جو انسان ہو اور اس کا دل کرے تو وہ مچھلی ضرور کھاتا ہے .
مجھے ایسا لگا جیسے میرے حلق میں کانٹا پھنس گیا ہو .

2 comments:

  1. آپ کے بلاگ پر پہلی بار آنا ھوا۔
    تزئین و آرائش بہت پسند آئی۔
    خوش رھیں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت شکریہ جناب ! امید ہے آئندہ بھی آتے رہیں گے

      Delete