جب سے بخشو ریڑھی بان نے سنا تھا کہ کراچی ائیرپورٹ پہ غصے سے بھرے ہوئے مسافروں نے دیر سے آنے پر دو سیاستدانوں کو جہاز سے اتار دیا ہے تو اس کا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا .اسے بھی اپنا آپ تھوڑا معزز لگنے لگا تھا .کیونکہ اس سے پہلے تو اسے انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا.جب سےاسنے ہوش سنبھالی تھی وہ اپنے باپ کے ساتھ پھل کی ریڑھی سرکاتا تھا .باپ کے مر جانے کے بعد وہ اس کی وراثت کا اکلوتا وارث بن گیا تھا اور یہ وراثت فقط ایک ریڑھی تھی اور ایک نصیحت جو اس نے مرتے وقت کی تھی .
"دیکھ پتر !آسمان پہ تو ایک رب ہے نا لیکن زمین
پہ کئی چھوٹے چھوٹے خدا بنے بیٹھے ہیں، چوکی والے تھانیدار صاحب، بلدیہ والے مائی باپ ،وہ
شیخ صاحب جس کی دوکان کے آگے ریڑھی کھڑی کرتا ہے ،یہ سب....! ان سب کو ان کا حصہ ٹائم
پہ پہنچا دیا کرنا نہیں تو اوپر والا خدا بھی تم سے ناراض ہو جائے گا" .
باپ کے جانے کے بعد