December 13, 2015

ایک حکایت

گئے دنوں کی بات ہے کہ کسی علاقے میں ایک چورکا بہت چرچا تھا .کوئی دن جاتا تھا کہ وہ چور کسی گھر میں نقب زنی کرتا اور قیمتی مال اور گہنےچوری کر لیتا .علاقے کے تمام لوگ اس سے خوفزدہ تھے .ملک پہ  اس وقت انگریز کی حکومت تھی اور صاحب بہادر اپنے کام میں کافی مستعد تھے.گورے تھانیدار نے ہر جگہ اپنے اہلکار چور کی تلاش میں لگا دیے .خیر کافی مہینوں کی تگ و دو کے بعد وہ چور قانون کے شکنجے میں آہی گیا . مقدمہ چلا اور اسے پھانسی کی سزا  ہوگئی.پورے مقدمے کے دوران اس کے کیس کی  پیروی اس کے کسی رشتےدار نے نہ کی .مقررہ تاریخ سے ایک ہفتہ پہلے اسے کال کوٹھری میں منتقل کر دیا گیا .وہ چور سارا دن چپ چاپ خلاؤں میں گھورتا رہتا تھا .پھانسی سے ایک دن پہلے اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی .اس نے اپنی ماں سے ملنے کی خواہش ظاہر کی .سارے لوگ حیران ہوئے کہ اس کی ماں زندہ ہے تو پھر اس نے پہلے کبھی ذکر نہیں کیا.خیر چور نے ماں کا پتہ بتایا اور سرکاری ہرکارےاس کی ماں کو مقررہ دن پھانسی گھاٹ لے آئے. جب ماں بیٹے کی آنکھیں  چار ہوئیں تو ماں  فرطِ جذبات میں آنسوں بہانے لگی .مگر دوسری جانب مکمّل سکوت رہا .چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بیٹا ماں کے پاس گیا اور اس سے لپٹ گیا .ماں بھی اسے لپٹ کر گریہ و زاری کرنے لگی .اچانک اس چور نے اپنی ماں کے داہنے کان پر زور سے کاٹا.اس بزرگ عورت کی چیخیں نکل گئیں .پولیس والوں نے بڑی مشکل سے اس چور کو اپنی ماں سے الگ کیا .موقعےپر موجود مجسٹریٹ نے اس چور کو زور سے تھپڑ مارا اور بولا "اے بدبخت انسان چند لمحوں بعد تجھے پھانسی ہو جانی ہے اور تو اپنی ماں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہا ہے .تجھے موت کا ذرا خوف نہیں ؟" وہ چور دھیرے سے بولا "صاحب جی جب میں چھوٹا تھا تو ایک مدرسے میں پڑھتا تھا .ایک دن میں اپنے ایک ہم جماعت کے بستے سے ایک قلم چرالا یا اور گھر آ کے اپنی ماں کو دکھایا .میری ماں نے اسی داہنے کان سے سنا اور خوش ہو کر مجھے شاباش دی تھی .ماں کی اسی حوصلہ افزائی نے مجھے چور بنا دیا .اگر میری ماں مجھے اس وقت ایسے تھپڑ رسید کرتی  جیسے آپ نے کیا ہے تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ." .